Chapter 0 /سفر

سفر ِشام اور بحیرٰی
سفر ِشام اور بحیرٰی

                         جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف بارہ برس کی ہوئی تو اس وقت ابوطالب نے تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا، ابوطالب کو چونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے بہت ہی والہانہ محبت تھی اس ليے وہ آپ کو بھی اس سفر میں اپنے ہمراہ لے گئے، حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اعلان نبوت سے قبل تین بار تجارتی سفر فرمایا، دو مرتبہ ملک شام گئے اور ایک بار یمن تشریف لے گئے،یہ ملک شام کا پہلا سفر ہے اس سفر کے دوران '' بُصریٰ '' میں '' بُحیریٰ ''راہب (عیسائی سادھو) کے پاس آپ کا قیام ہوا،اس نے توراۃ وانجیل میں بیان کی ہوئی نبی آخر الزماں کی نشانیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھتے ہی پہچان لیااور بہت عقیدت اور احترام کے ساتھ اس نے آپ کے قافلہ والوں کی دعوت کی اور ابو طالب سے کہا کہ یہ سارے جہان کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں، جن کو خدا عزوجل نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ شجر و حجران کو سجدہ کرتے ہیں اور ابران پر سایہ کرتا ہے اور ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے،اس لئے تمہارے اور ان کے حق میں یہی بہتر ہوگا کہ اب تم ان کو لے کر آگے نہ جاؤاور اپنا مال تجارت یہیں فروخت کرکے بہت جلد مکہ چلے جاؤکیونکہ ملک شام میں یہودی لوگ ان کے بہت بڑے دشمن ہیں وہاں پہنچتے ہی وہ لوگ ان کو شہید کر ڈالیں گے۔بحیرٰی راہب کے کہنے پر ابو طالب کو خطرہ محسوس ہونے لگا چنانچہ انہوں نے وہیں اپنی تجارت کا مال فروخت کر دیا اور بہت جلدحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔ بُحیریٰ راہب نے چلتے وقت انتہائی عقیدت کے ساتھ آپ کو سفر کا کچھ توشہ بھی دیا۔ (سنن الترمذی، کتاب المناقب ، باب ماجاء فی بدء نبوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الحدیث:۳۶۴۰، ج۵،ص۳۵۶ والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام، قصۃ بحیری، ص۷۳) 

 
 
 

مینو

بند کریں

حج عمرہ کتاب

...