Chapter 0 /غلام
حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا

حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا |
آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب یوں ہے: آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ نسب میں موجود افراد لوگوں کاتعلق عرب کے معزز ترین قبیلہ بنوقریش سے تھا،نیز آپ رضی اللہ عنہا خود نہایت پرہیزگار اور پاکباز خاتون تھیں۔ حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اپنے نورِ نظرحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے جیسی دلہن کی تلاش میں تھے، وہ ساری خوبیاں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابنت وہب میں موجود تھیں، حضرت عبدالمطلب نے اس رشتہ کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔ |
نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تجارت کے لئے شام کو روانہ ہوئے، وہاں پہنچ کر آپ بیمار ہو گئے اور بیماری کی حالت میں واپس آرہے تھے کہ مدینہ منورہ سے گزرتے ہوئے والد کی ننھیال میں ٹھہر گئے او وہیں وفات پائی،حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے اس عالمِ بیوگی میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطنِ اطہر میں پرورش پار ہے تھے۔ |
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ اقدس سے جنم لیا اور ان کی آغوش میں پروان چڑھے، اس لحاظ سے بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا تمام عالم کی خواتین میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں کہ خاتم الانبیاء کو جنم دینے اور پالنے کا شرف آپ کے حصے میں آیا۔ |
جب حضرت مائی حلیمہ کے ہاں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائیں تو اس وقت عمر مبارک تقریباََ چھ سال تھی، آپ بڑے توانا او تندرست تھے گویا جس مقصد کے لئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے اکلوتے فرزند کی جدائی کا صدمہ سہا تھا وہ پورا ہو چکا تھا، اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے ہمراہ رہنے لگے، حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیارے بیٹے کا بڑا خیال تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتیں، حضرت عبداللہ کے انتقال کے بعد حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا ہر سال ان کی قبر کی زیارت کو مدینہ تشریف لے جاتیں۔ |
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر اس وقت چھ برس کی تھی جب آپ کی والدہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ گئیں، مدینہ شریف میں ایک ماہ کے قیام کے بعد جب واپس تشریف لا رہی تھیں تو مدینہ اورمکہ کے درمیان ابوا کے مقام پر وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں۔اللہ تعالی آپ کے درجات بلند فرمائے ۔آمین اللهم صل على محمد وعلى آله وصحبه وسلم |
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے مضبوط دل اور حوصلہ مند انسان تھے ، مشکل سے مشکل وقت اور کڑے سے کڑے حالات میں بھی آپ صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو صبروتحمل ، شجاعت اور مردانگی کا سبق دیا لیکن ان کی زندگی میں بھی چند مواقع ایسے آئے جب ان کی مبارک آنکھیں بے اختیار اشک بار ہوگئیں۔ |
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ محترمہ کی جناب میں نذرانہ عقیدت و احترام ہے،ان آنسووٴ ں کو کم حوصلگی سے کوئی تعلق نہیں، یہ توبے اختیار آنسو ہیں جو اس ”حرم محترم“ میں حاضری کا خراجِ عقیدت ہے ، یہ ماں کے ان قدموں میں، جن کے نیچے جنت ہوتی ہے، گلہائے عقیدت کے طور پر آنسووٴں کا گلدستہ ہے۔ |
وہ موقع جب غزوہ بد رسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ ابوا کے لئے گئے،غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک پر حاضر ہوئے جو اسی نواح میں تھی، وہاں آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی آنکھوں میں آنسو ! مطلب یہ تھا کہ آپ تو فرمایا کرتے ہیں کہ مرنے والوں پر رونا نہیں چاہیے لیکن اب آپ جیسے مضبوط انسان کی آنکھیں بھی نمناک ہیں؟؟؟؟ |