Chapter 0 /بچے
ابولہب بن عبد المطلب

ابو لہب بن عبدالمطلب |
صحیح بخا ری میں یہ روایت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت کی خبر جب ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے اسے دی تواپنےبھتیجے کی ولادت کی خوشخبری سن کر اس نے ثویبہ کو آزاد کر دیا ۔پیر محمد کرم شاہ محفل میلاد کے حق میں بحث کے دوران ضیا ءالنبی میں لکھتے ہیں کہ اگر چہ ابو لہب کی موت کفر پر ہوئی اور اس کی مذمت میں پوری سورۃ نازل ہوئی مگر میلاد مصطفیٰ ﷺ پر خوشی کی برکت سےسارے ہفتے کے مسلسل عذاب کے بعد اسے پانی کا گھونٹ پلایا جاتا ہے اور اسکےعذاب میں کمی کر دی جاتی ۔دوسرے چچوں کی طرح ابو لہب بھی شروع میں حضور ﷺ سے محبت کا برتاؤ کرتا ۔نبی پاک ﷺ کے ولادت کے ساتویں روز جب حضرت عبدالمطلب نے سارے قریش کو جمع کر کے عقیقہ کیا تو ابو لہب نے اس تقریب میں خوشی خوشی شرکت کی تھی اور ان سات دنوں میں ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی ثویبہ نے کئی بار نبی کریم ﷺ کو دودھ پلایا۔حضرت عبدالمطلب جب حرم شریف میں حاضری کے لئے جاتے توکعبہ کے سائے میں ان کے لئے مخصوص نشست گاہ بنائی جاتی کسی بڑے سےبڑے آدمی کی مجال نہ تھی کہ اس پر قدم رکھے حتیٰ کے ان کے بیٹے بھی از راہ ادب ان سے دور ہٹ کر بیٹھتے لیکن جب حضور ﷺ تشریف لاتے توبے جھجک اپنے ذی وقار دادا کی نشست پر بیٹھ جاتے ۔ایک بار ابو لہب اور ایک دوسرے چچوں نے ایسا کر نے سے منع کیا تو حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹوں سے فرمایا ۔میرے بچے کو مت روکو اس کو آگے آنے دو بخدا اس کی بڑی شان ہوگی ۔ابو لہب اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ حرب فجار میں بھی شریک تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی پاک ﷺ کے نکاح کی تقریب میں حضرت عبدالمطب کے تمام بیٹے تمام قابل تذکرہ افراد مدعو تھے ۔ان میں ابو لہب بھی شریک تھا۔یہاں تک ابو لہب نبی پاک ﷺ سے محبت کرنے والا دکھائی دیتا تھا ۔مگر جونہی رسول پاکﷺ اعلان نبوت فرمایا اور اسلام کی دعوت دی چچا دشمنی پر اتر آیا ۔بعثت کے بعد تین عرصہ خاموشی سے تبلیغ کرتے گزرا۔اب وقت آگیا تھا کہ دعوت توحید کے دائرے کو وسیع کیا جائے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم ﷺ کوحکم دیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دیں۔اس حکم خدا وندی کی تعمیل ضروری تھی ۔لیکن یہ کوئی آسان کام نہ تھا ۔حضور ﷺ کئی روز تک اس سوچ میں مستغرق رہے را ت اوار دن اسی فکر میں بیت جاتے ۔آپ گھر میں گوشہ نشین رہنے لگے۔پھوپھیوں کو اندیشہ ہوا کہ آپﷺ بیمار تو نہیں ۔شفیق پھوپھیاں عیادت کی نیت سے آئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن اس سوچ میں رہتا ہوں کہ اللہ کے حکم کی تعمیل کیسے کروں ؟؟؟انھوں نے عرض کیا بے شک آپ عبدالمطلب کی تمام اولاد کو بلائیں لیکن عبدالعزیٰ(ابو لہب ) کو نہ بلائیں وہ آپﷺ کی بات نہیں مانے گا۔دوسرے روز نبی پاکﷺ نے عبدالمطب کی اولاد کو بلا بھیجا ان کے ساتھ عبد مناف کی اولاد میں سے بھی چند لوگ پہنچ گئے۔سب کی تعداد پینتالیس تھی۔کھانے بعد نبی پاکﷺ ابھی مدعا بیان کرنے اٹھے بھی نہ تھے کہ ابو لہب نے کہا !یہ تمھارے چچے اور چچا زاد بھائی ہیں۔اب تم جو کہنا چاہتے ہو کہو لیکن اتنا یاد رکھنا تمھاری قوم میں اتنی طاقت نہیں کہ سارے اہل عرب کا مقابلہ کر سکے۔مناسب تو یہ ہے کہ تمھارے قبیلے والے اور قریبی رشتہ دار تمھیں اس سے روک دیں۔ابو لہب کہتا رہا اور نبی پاکﷺ خاموش رہے اور اس مجلس میں کوئی گفتگو نہ فرمائی۔چند روز بعد پھر آپ نے رشتہ داروں کی دعوت فر مائی اور ان کے سامنے اسلام کی دع وعوت پیش کی۔سب نے تو معقول جواب دیا مگر ابو لہب نے بڑی رزالت کا ثبوت دیا ۔اس نے کہا :اے فرزندان عبدالمطب ’یہی چیز ہمارے لئے زلت و رسوائی کا باعث بنے گی ۔تم آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لو ۔اس سے پہلے کہ دوسرے لوگ اس کے ہاتھوں کو پکڑیں ۔نبی پاک کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاابو لہب کی یہ بات سن کر ضبط نہ کر سکیں ۔انھوں نے کہا اے بھائی !کیا تمھیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ تم اپنے بھتیجے کو بے یار و مدد گار چھوڑ دو۔بخدا آج تک ہمیں اہل علم یہ بتاتے رہے کہ عبدالمطلب کی نسل سے ایک نبی ظاہر ہوگا ۔بخدا یہ وہی نبی ہیں۔ابو لہب کہنے لگا یہ ساری باتیں بے سر و پا ہیں اور پردہ نشین عورتوں کی باتیں ہیں۔جس وقت قریش کے سارے خاندان تمھارے خلاف ہوں اور جزیرہ عرب کے لوگ انکی مدد کررہے ہوں تو ہمیں اس وقت اپنی حقیقت خود معلوم ہو جائیگی۔ابو لہب کی گفتگو کے بعد ابو طالب کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ بخدا جب تک ہمارے جسم میں جان ہے ہم ان کی حفاظت اور دفاع کریں گے ۔اب حضور ﷺ نے تیسرے اجتماع کا اہتمام فرمایا ۔اس میں قریش کے سارے قبیلوں کو دعوت دی گئی۔اور صفا کی پہاڑی پر کھٹے ہو کر نبی پاک ﷺ نے سب کو مخاطب فرمایا ۔حضرین اگر میں تم سے کہوں کہ صفا پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے بڑھتا چلا آرہا ہے تم تسلیم کرو گے؟انھوں نے کہا ہاں ہم تسلیم کرینگے کیونکہ آج تک ہم نے آپ کے منہ کوئی ایسی بات نہیں سنی جو غلط ہو ۔اس پر نبی پاک نے فرمایا اے قریشیوں!اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔کیونکہ میں تمھیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔میں عذاب شدید سے پہلے تمھیں واضح طور پر ڈرانے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔حاضرین میں ابو لہب بھی موجود تھا اس بد بخت نے آپ کی گفتگو سن کر کہا :تو برباد کیا آج ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا ۔اللہ کے محبوب نے تو اس گستاخی کا کوئی جواب نہ دیا اور اپنے بے پایا ں حلم اور عالی ظرفی کے باعث سکوت فرمایا۔لیکن آپ ﷺ کے غیور رب نے اسی وقت اس بد بخت اور گستاخ کی مذمت میں پوری ایک سورۃنازل فرمادی ۔‘تبت یدا الہب ’یعنی ابو لہب کے وہ دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں ۔جن کی ایک انگلی سے میرے محبوب کی طرف اشارہ کیا۔اور وہ خود بھی تباہ و برباد ہو جائے۔ |
قریش کے تمام قبیلے جب نبی کریم ﷺ کو دعوت حق سے نہ روک سکے تو انھوں نے جناب ابو طالب کو دھمکیاں اور ترغیبات دینی شروع کردیں۔جناب ابو طالب کو بڑا رنج ہوا اور انھوں نے ایک قصیدہ لکھا جس میں بنو ہاشم اور خصوصا بنو عبدالمطلب کے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے جیتے جی حضور ﷺ کوقریش کے حوالے نہ کریں گے۔اس پر دونوں خاندانوں نے وعدہ کیا کہ وہ حضور ﷺ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔البتہ ابو لہب جو آپ ﷺ کا سگا چچا اور خاندان بنو ہاشم کا ایک سر کردہ آدمی تھا ۔اس نے خاندان کے موقف کے برعکس حضور ﷺ کی عداوت میں اپنی ہر چیز داؤ پر لگانے کی قسم کھا لی۔اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ حضور ﷺ کو دکھ پہنچانے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں صرف ہونے لگا۔اس کے اس کام میں اس کی بیوی ام جمیل جس کا نام ارویٰ بنت حرب بن امیہ تھاجو ابو سفیان کی بہن تھی سب سے پیش پیش تھی۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں ابو لہب کے ساتھ اس عورت کو بھی عذاب جہنم کا سزا وار قرار دیا ہے۔ابو لہب اور اس کی بیوی کے کہنے پر ہیان کے بیٹوں نے حضور ﷺ کی صاحبزایوں کوطلاق دے دی تھی۔ |