Chapter 0 /بچے

زبیر بن عبد المطلب
زبیر بن عبدالمطلب
نبی کریم ﷺ کے یہ چچا بڑے بہادر اور انصاف پسند تھے،نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل ساراعرب  معاشرہ قبائلی نظام میں جکڑا ہوا تھااور کوئی منظم حکومت بھی نہ تھی جو مظلوموں کی داد رسی کرتی ،اگر کوئی شخص کسی دوسرے قبیلے کے کسی شخص کو قتل کر دیتا تو مقتول کا قبیلہ نہ صرف اس قاتل سے انتقام بلکہ اس کے سارے قبیلے سے انتقام لیا جاتا،مکہ مکرمہ میں دس قبائل آباد تھے جو دیگر قبائل عرب کےخلاف ایک دوسرے کے اتحادی تھے ،اگر کوئی عرب قبیلہ قریش کے کسی ایک قبیلے پر حملہ آور ہوتا تو سارے قریشی قبائل مل کر اس حملہ آور کا مقابلہ کرتے کوئی بھی یہ دیکھنے کی زحمت نہ کرتا   کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟۔

جناب زبیر بن عبدالمطلب اس صورت حال سے بہت بے زار تھے،انھیں ہرگز یہ پسند نہ تھا کہ کسی بے سہارا مسافر پر مکہ کا کوئی رئیس زیادتی کرے اور وہ بے بس تماشائی بنے رہیں۔

ایک بار یمن کا ایک تاجر اپنے سامان تجارت کے ساتھ مکہ پہنچا،مکے میں عاص بن وائل نامی ایک امیر آدمی نے اس یمنی تاجر سے سودا کر کےسامان اپنے قبضے میں لینے کے بعد اس کی قیمت ادا کرنے انکار کردیا ،یمنی  بے چارامسافر تھا،یہاں اس کی جان نہ پہچان،اس نے عاص بن وائل کے دوست قبائل عبدالدار،مخزوم،جمح،سہم اور عدی بن کعب سے شکایت کی کہ وہ اس کی مدد کریں۔ان قبائل نے مدد کے بجائے اسے جھڑک دیا ۔یمنی نے ان سے مایوس ہو کر ایک اور کام کیا ۔

طلوع آفتاب کے بعد جب قریش حرم کعبہ میں حسب معمول اپنی اپنی  مجلسیں جمائے بیٹھے تھے تو وہ قریب واقع جبل ابی قبیس پرچڑھ گیااور وہاں کھڑے ہو کر بلند آواز سے فریاد کی ۔اے فہر کی اولاد اس مظلوم کی فریاد سنو!!!!جس کا مال و متاع مکہہ شہر میں ظلماچھین لیا گیا ہے ۔وہ غریب الدیار ہے اپنے وطن سے دوراپنے مددگاروں  سے دور  ہے۔وہ ابھی احرام کی حالت  میں ہے۔اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں۔اس نے ابھی عمرہ بھی ادا نہیں کیا اے مکہ کے رئیسوں میری فریاد سنو!!!مجھ پر حطیم اور حجر اسود کے درمیان ظلم کیا گیا ہے ۔حرم میں موجود سارے قریشیوں نے یہ فریاد سنی لیکن سب سے پہلے اس آواز پر لبیک کہا وہ زبیر بن عبدالمطلب تھے ۔زبیر اس مظلوم کی آہ وزاری پر مضطرب ہو کر کھڑے ہوئے اور اعلان کیا۔۔۔۔اب اس فریاد کو نظر انداز کر دینا ہمارے بس کی بات نہیں۔۔۔چنانچہ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں بنی ہاشم،بنی زہرہ،بنی تیم بن مرہ قبائل جمع ہوئے۔اس اجتماع میں شریک  تمام شرکا ء نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا کہ وہ سب متحد ہو کر ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے۔یہاں تک کہ ظالم ،مظلوم کو اس کا حق ادا کرے۔اس معا ہدے کا نام حلف الفضول رکھا گیا کیوں کہ عہد قدیم میں بنو جرھم نے بھی اس قسم کا ایک معاہدہ کیا تھااور جن تین آدمیوں نے اس کے لئے بھاگ دوڑ کی تھی اور اسے پروان چڑھایا تھا۔ان تینوں کا نام فضل تھا  اور فضل کی  جمع فضول ہے ۔یہ تین افراد فضل بن خضالہ ،فضل بن وداعہ ،اور فضیل بن حارث تھے ۔نئے معاہدے کے بھی وہی مقاصد تھے ۔اس لئے اس کو بھی حلف الفضول   کے نام سے شہرت ملی۔جب یہ معاہدہ طے پاگیا تو سب مل کر عاص بن وائل کے گھر گئے اور  مطالبہ کیا کہ اس تاجر کا مال واپس کردے۔اب س فریبی کو انکار کی مجال نہ تھی لہٰذا مجبورا اس تاجر کا مال واپس کردیا ۔اس مو قع پر جناب حضرت زبیر بن عبدالمطلب نے خوشی کا اظہار کیا ۔نبی کریم ﷺکی عمر مبارک اس وقت بیس برس تھی۔حضور ﷺ نے اس معاہدہ میں شرکت فرمائی ۔بعثت کے بعد بھی نبی کریمﷺ اس معاہدہ میں شرکت پر اظہار مسرت فرمایا کرتے تھے۔اور فرماتے تھے کہ جب حلف الفضول طے پایا تو میں عبداللہ بن جدعان کے گھر موجود تھا۔اس معاہدے سے الگ ہونے کے بدلے اگر کوئی مجھے سرخ اونٹ د ے تب بھی میں لینےکے لیے تیار نہیں اور اس قسم کے معاہدے کی دعوت اسلام میں بھی اگر کوئی مجھے  دے تو میں اسے قبول کروں گا۔ 

 
 
 
 

مینو

بند کریں

حج عمرہ کتاب

...