Chapter 0 /بچے
جناب ابوطالب بن عبد المطلب

جناب ابو طالب عبد مناف بن عبدالمطلب |
حضرت ابو طالب کا نام عبد مناف تھا جبکہ ابو طالب ان کی کنیت تھی ۔حضرت ابو طالب حضور ﷺ کو شروع دن سے بہت چاہتے تھے ۔ جناب ابو طالب نے وقت انتقال نبی پاکﷺ کی پرورش کی ذمہ داری ابو طالب کو عطا فرمائی تھی۔ابو طالب کی مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی اس کے باوجود آپ اور آپ کی اہلیہ فاطمہ بنت اسد نےاپنے بچوں سے بڑھ کر حضور ﷺ کی دیکھ بھال کا فریضہ ادا کیا ۔اس زمانے میں عرب کے اندر کاہنوں،راہبوں،نجومیوں،قیافہ شناسوں کی کثرت تھی،بنی ازد خاندان قیافہ شناسی میں بہت مشہور تھا ،ان کا ایک قیافہ شناس ایک مرتبہ مکہ آیا تو جناب ابو طالب نبی پاکﷺ کو بھی لیکر اس کے پاس گئے،اس نے ایک نظر آپ ﷺ کو دیکھا پھر دوسرے بچوں کو دیکھنے لگا ،جب فارغ ہوا تو کہنے لگا:ابھی ابھی میں نے ایک بچہ دیکھا تھا اسے میرے پاس لاؤ۔ ابو طا لب نے حضور ﷺ کے بارے میں اس کا اشتیاق دیکھا تو آپ نے نبی کریم ﷺ کو چھپا دیا،وہ بار بار اصرار کرتا کہ وہ میرے سامنے لاؤ بخدا اس کی بڑی بلندشان ہوگی لیکن ابو طالب حضور ﷺ کو لے کر چلے گئے اور اس کے اصرار کے باوجود آپ ﷺ کو اس کے سامنے نہ کیا ۔
علامہ ابن خلدون کی روایت کے مطابق جب نبی کریمﷺ کی عمر تیرہ یا سترہ برس کی تھی تو ابو طالب نے تجارت کی غرض سے شام جانے کی تیاری کی،حضور ﷺ نے اونٹنی کی مہار پکڑ لی اور فرمایا :اے چچا !آپ مجھے کس کے سپرد کر کے جا رہے ہیں؟میرے والد ہیں نہ ماں،چنانچہ ابو طالب آپ کو اپنے ساتھ کے کر روانہ ہوئے ۔ ابو طالب کو اپنے بھتیجے کی نبوت اور اہمیت کا یقین تھا،ایک مرتبہ مکے میں قحط سالی تھی ،کئی عرصے سے بارش نہ ہوئی تھی ، لوگ بنو ہاشم کو ان کی نیک خصلت اور کعبہ کی خدمت کے باعث بزرگ مانتے تھے،تمام اہل مکہ ابو طالب کے پاس آئے اور بارش کےلئے دعا کی درخواست کی، جناب ابو طالب نے آنحضرت ﷺ جو اس وقت نو خیز نو جوان تھے انھیں ساتھ لیا اور آپ ﷺ کی پشت کعبہ سے لگا دی پھر آپﷺ کے ہاتھ اٹھا کر دعا کی درخواست کی توہاتھ اٹھنے کی دیر تھی کہ سارا مکہ جل تھل ہوگیا اور خوب بارش ہوئی جس سے فصلیں کاشت کرنے کے لئے زمین تیار ہو گئی ۔ |
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے قاضی |
جب حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے تجارتی قافلے کو لے کر شاجانے پر آمادگی ظاہر کردی اور پھر آپ کی دیانت اور معاملہ فہمی سے متاثر ہو کر حضرت خدیجہ نے آپ ﷺ سے نکاح کرلیا ۔حضرت خدیجہ کے ہاں نکاح کا پیغام لیکر ابو طالب خود گئے اور نبی کریم ﷺ کے نکاح کا خطبہ خود دیا ۔خطبے میں انھوں نے کہا:سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں کہ جس نے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کھیتی سے معد کی نسل سے اور مضر کی اصل سے پیدا ٖفرمایا نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر کیا ،ہمیں ایک ایسا گھر دیا جس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جس میں امن میسر آتا ہے نیز ہمیں لوگوں کا حکمران مقرر فرمایا ۔حمد کے بعد میرا یہ بھتیجا جس کا نام محمد بن عبداللہ ہے ۔اس کا دنیا کے جس کسی بھی بڑے سے بڑے آدمی سے موازنہ کیا جائیگا اس کا پلڑا بھاری ہوگا۔اگر یہ مالدار نہیں تو کیا ہوا۔مال تو ختم ہونے والی چیز ہے ۔اور محمد ﷺجن کی قرابت کو تم خوب جانتے ہو۔اس نے خدیجہ بنت خویلد کا رشتہ ظلب کیا ہےاور ساڑھے بارہ اوقیہ سونا مہر مقرر کیا ہے اور بخدا مستقبل میں اس کی شان بہت بلند ہوگی ۔اس کی قدر و منزلت بہت جلیل ہوگی ۔ |
اسلام کی مدد کرنے والے |
ایک بار نبی اکرم ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے تھے جبکہ ابو طالب کے ایک بیٹے جعفر رضی اللہ عنہ قریب کھڑے تھے ،ابو طالب نے انھیں کہا کہ تم بھی اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ،ذرا تصور کیجئے کہ جب سارا عرب دعوت اسلام کے باعث آپ ﷺ کی دشمنی پر کمر بستہ ہو چکا تھا،ابو لہب جیسا چچا بھی مخالفین کے ساتھ مل چکا ہوتو جب ابو طالب نے جعفر کو جب حضور ﷺ کے ساتھ عبادت کرنے کا کہا ہو گا تو رسول اللہ ﷺ کے دل میں کیسی مسرت ہوئی ہوگی اور مخالفتوں کے طوفان میں آپ کی کیسی حوصلہ افزائی ہوئی ہوگی؟ |
دائمی مدد کا وعدہ |
قریش کے سردار نبی کریم ﷺ کے خلاف طرح طرح منصوبے بنانے لگے،اب انھوں نے عام لوگوں کو نبی کریم ﷺ کےخلاف مشتعل کرنا شروع کردیا ،انھوں نے ایک بار پھر جناب ابو طالب سے ملاقات کی اورسخت لہجے میں گفتگو کی،اس بار انھوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ جناب ابو طالب کو بھی خطرناک نتائج کی دھمکی دی،حضور ﷺ تشریف لائے تو جناب ابو طالب نے قریش کی دھمکیوں اور ارادوں سے آگاہ کیاپھر کہا: مجھ پر بھی رحم کرو اور اپنے آپ پر بھی،مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو اٹھانے کی مجھ میں ہمت نہیں ۔ نبی کریم ﷺ کو چچا کی گفتگو سن کر یہ خیال گزرا کہ شاید ابو طالب آپ کی مدداور تعاون سے ہاتھ اٹھانا چاہتے ہیں اور اب ان میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ وہ آپ کا ساتھ دے سکیں تواس موقع پر رحمۃ اللعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئےاور فرمایا:چچاجان !خدا کی قسم! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں پر چاند رکھ دیں اور یہ سمجھیں کہ میں اپنا کام ترک کردوں گا تو یہ ممکن نہیں حتی ٰکہ اللہ تعالیٰ اس دین کو غلبہ دے دے گا یا میں اس کے لئے جان دے دوں گا ،اس وقت تک میں اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔پیارے بھتیجے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ابو طالب نے پاس بلایا ،سینے سے لگایا ، بوڑھے چچا ہچکیاں لے کر رو رہے تھے اور آنسو باتیں کر رہے تھے پھر بولے اے میرے بھتیجے! تمہارا جو جی چاہے کہو،میں تمہیں کسی قیمت پر کفار کے حوالے نہیں کروں گا۔ |
خدمت رسول میں زندگی گزارنے والے |
جناب ابو طالب تنہا حضور ﷺ کی حمایت پر ڈٹے ہوئے تھے، ابو طالب کی زندگی خدمت رسولﷺ کے حوالے سے بھری پڑی ہے ،آپ نے اس وقت نبی کریم ﷺ کا دفاع کیا جب خاندان اورقبیلہ مخالفت پر کمربستہ تھا ۔آپ نے اپنی اولاد کو ہر مقام پر نبی کریم ﷺ کا ساتھ دینے کی ہدایت کی،آپ کی بیوی فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہااور تمام اولاد ، رسول پاک ﷺ پر ایمان لائی ۔ |