Chapter 0 /بچے

حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ
حضرت  عباس رضی اللہ عنہ  
حضرت  عباس رضی اللہ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو یا تین سال قبل  پید ا ہوئے۔ علامہ ابن سعد نے نقل فرمایا ہے :قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: أخبرنا خالد بن القاسم البياضي قال: حدثني شعبة مولى ابن عباس قال: سمعت عبد الله بن عباس يقول: ولد أبي العباس بن عبد المطلب قبل قدوم أصحاب الفيل بثلاث سنين. وكان أسن من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -بثلاث سنين. ان کی والدہ کا نام غتیلہ  بنت خباب تھا،یہی سب  سے  پہلی خاتون  ہیں جنہوں نے  کعبۃ اللہ  پر ریشمی  غلاف  چڑھایا۔ حضرت عباس  رضی اللہ عنہ کے والد حضرت عبدالمطلب اور ان کے اجداد اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتلاتے تھے،چناں چہ ان کی پرہیز گاری تمام قریش میں مشہور ہوگئی تھی،یہی وجہ ہے کہ عبدالمطلب کے بعد جب حضرت عباسکی عمرگیارہ برس تھی اور باوجود یکہ اور بھی ان کے بھائی موجود تھےمگر قریش نے حضرت عباسمیں علم ،شجاعت،سخاوت ،سیادت،خاندانی نجابت،صلہ رحمی دیکھ کر انہیں کو بیت اللہ کا محافظ منتخب کیا۔ (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ص:498مطبع دائرة المعارف ،حیدرآباد دکن)اور سب نے بالاتفاق یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی حضرت عباسرضی اللہ عنہ  کا کہنا نہ مانے گا تو اس کو ساری قوم کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ چناں چہ حضرت عباس ہمیشہ بیت اللہ کی حفاظت میں اپنے وقت کو صرف کیا کرتے تھے اور آپ نے اس قدر اچھا انتظام کیا کہ کسی کومجال نہ تھی کہ کوئی شخص بیت اللہ میں بیٹھ کر کسی کی ہجویا غیبت کر سکے ،اگر کوئی ایسا کرتا تو حضرت عباسفوراً اس کو تنبیہ فرمادیا کرتے تھے اور ان کے حکم کے آگے سب کی گردنیں خم ہو جاتی تھیں۔  (کامل ابن اثیر،ج:1،ص:9) 
 

اسلام قبول کرنے کا واقعہ  

دوہجری میں کفارِ قریش مدینہ پر حملے کرنے کے لیے نکلے، حضرت عباس جنگ میں جانا نہیں چاہتے تھےمگر قبیلہ اور قوم کے شدید اصرار پر بادلِ نخواستہ نکلے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بھی علم تھا کہ وہ دل میں اسلام لاچکے ہیں ،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں اعلان فرمادیا کہ عباس کو کوئی قتل نہ کرے۔ (ابن اثیر،ج :2،ص:38)

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤىۙ-اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(سورہ انفال:۷۰) ترجمہ: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی)جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے فرماؤ اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں بھلائی جانی تو جو تم سے لیا گیا اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ یہ آیت حضرت عباس بن عبد المطلب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو سید عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا ہیں۔یہ کفارِ قریش کے ان دس سرداروں میں سے تھے جنہوں نے جنگِ بدر میں لشکرِ کفار کے کھانے کی ذمہ داری لی تھی اور یہ اس خرچ کے لئے بیس اوقیہ سونا ساتھ لے کر چلے تھے لیکن ان کے ذمے جس دن کھلانا تجویز ہوا تھا خاص اسی روز جنگ کا واقعہ پیش آیا اور قِتال میں کھانے کھلانے کی فرصت ومہلت نہ ملی تو یہ بیس اوقیہ سونا ان کے پاس بچ رہا، جب وہ گرفتار ہوئے اور یہ سونا ان سے لے لیا گیا تو انہوں نے درخواست کی کہ یہ سونا ان کے فدیہ میں شمار کرلیا جائے مگر رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انکار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو چیز ہماری مخالفت میں صَرف کرنے کے لئے لائے تھے وہ نہ چھوڑی جائے گی اور حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر ان کے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کے فدیئے کا بار بھی ڈالا گیا تو حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا :یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم مجھے اس حال میں چھوڑو گے کہ میں باقی عمر قریش سے مانگ مانگ کر بسر کیا کروں تو حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ پھر وہ سونا کہاں ہے جس کو تمہارے مکہ مکرمہ سے چلتے وقت تمہاری بیوی ام الفضل نے دفن کیا تھا اور تم ان سے کہہ کر آئے ہو کہ خبر نہیں ہے مجھے کیا حادثہ پیش آئے، اگر میں جنگ میں کام آجائوں تو یہ تیرا ہے اور عبداللہ اور عبیداللہ کا اور فضل اور قثم کا (سب ان کے بیٹے تھے) حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے خبردار کیا ہے ۔اس پر حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ سچے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میرے اس راز پراللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی مُطَّلع نہ تھا اور حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھتیجوں عقیل و نوفل کو حکم دیا وہ بھی اسلام لائے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۱۱) 

 
فضائل حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں،جن کا خلاصہ  پیش خدمت  ہیں: ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عباسمجھ سے ہیں اور اور میں عباس سے ہو ں ۔یہ غایت محبت کے الفاظ ہیں، جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عباس سے محبت معلوم ہوتی ہے۔
آپ بے انتہا سخی اور صلہ رحمی کرنے والے تھے، ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عباس بن عبدالمطلب قریش کے اعلیٰ درجہ کے سخی لوگوں میں سے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ (اصابہ،ص:666)
حضرت عباسکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ خاص صلوٰة التسبیح کی تعلیم دی اور ارشاد فرمایا: یہ وہ نماز ہے کہ جس کے پڑھنے سے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔
حضرت عمرکے زمانے میں لوگ جب قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عمرحضرت عباسکو وسیلہ قراردے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تو بارش فوراً شروع ہوجاتی۔ 
 
وفات
۳۲ ھ یا ۳۳ ھ میں ستاسی یا اٹھاسی برس کی عمر پاکر وفات پائی اور جنۃ البقیع میں مدفون ہوئے۔ (زرقانی جلد۳ ص۲۷۰ تا ۲۸۵ و مدارج جلد۲ ص۲۸۸)
 

مینو

بند کریں

حج عمرہ کتاب

...